حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، چئیرمین اصغریہ تحریک پاکستان،انجنئیر سید حسین موسوی نے المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے پابندی کی مزمت کرتے ہوئے کہا کہ جمہوری اسلامی ایران نے پچھلے چار دہائیوں میں یونیورسٹیز کو تحقیق کا مرکز بنایا ہے۔ اس عرصہ میں اس نے محسوس حد تک علمی ترقی حاصل کی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو مغرب کو پسند نہیں ہے۔ کیونکہ اگر اسلام اور علمی ترقی ایک ساتھ چلتی ہے تو یہ مغرب کے اس نعرے کے خلاف ہوگا کہ دین علمی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ اسلیے مغرب یہ نہیں چاہتا کہ دین اور علمی ترقی ایک ساتھ چلیں۔ اسلامی جمہوری ایران سے مغرب کی دشمنی کا ایک سبب علمی ترقی میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا ہدف بھی ہے۔
المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی پر امریکی پابندیاں بھی اسی مقصد سے وابستہ ہیں تاکہ مسلمانوں پر تحقیق کے دروازے بند رہیں۔
اگر غیر مغربی اقوام چاہتی ہیں کہ علوم میں ترقی کریں تو اسکا ایک ہی راستہ ہے، جو علوم کی ترقی کی پوری تاریخ نے بتایاہے کہ مغربی علوم کو اپنی ملکی قومی مادری زبان میں ترجمہ کریں اور پھر اپنی قومی زبان میں اس پر اپنی جدید تحقیق کا اضافہ کریں۔علوم کو اپنی قومی زبان میں پڑھایا جائے اور یونیورسٹیز کو تحقیق کا مرکز بنایا جائے۔
انسانی تہذیب کا آغاز عراق کی سرزمین نجف سے ہوا اور آخری انسانی تہذیب کا مرکز بھی وہی ہوگا۔ اسی سرزمین بابل سے علوم کی ترقی کا آغاز ہوتا ہے۔ جب بابل کی سرزمیں پر علمی ترقی کا زوال آیا تو پھر مصر کی تہذیب وجود میں آئی جو فرعون کے دور میں علمی ترقی کا مرکز بنا۔ مصر نے بابلی علوم لیے ان پر اپنے تحقیقات کو آگے بڑھایا اور اضافہ کیا۔جب مصر پر زوال آیا تو یونان علوم کا مرکز بنا۔ یونان نے مصری علوم لیے اور اس پر اپنی جدید تحقیقات کا اضافہ کیا۔جب یونان میں علوم کا زوال آیا تو مسلمان علمی ترقی کا مرکز بنے۔ مسلمانوں نے یونانی علوم لیے اور ان پر اپنی جدید تحقیقات کا اضافہ کیا۔جب مسلمانوں میں علم کا زوال آیا تو قرون وسطیٰ کے اختتام پر یورپ علم کا مرکز بنا۔ یورپ نے مسلمانوں سے علوم لیے اور پھر اس پر اپنی جدید تحقیات کا اضافہ کیا۔
لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ بابل کے بعد جب مصر علوم کا مرکز بنا تو کسی نے مصر کو اس سے روکا نہیں۔
اسی طرح جب علوم کا مرکز یونان بنا تب بھی کسی نے یونان کو روکا نہیں۔ یونان سے جب مسلمان علوم کا مرکز بنے تو بھی انہیں کسی نےنہیں روکا۔جب مسلمانوں سے علوم کا مرکز یورپ بنا تو یورپ کو بھی کسی نے نہیں روکا۔
لیکن اس وقت مغربی سیاست نے مسلمانوں کے اندر ایک بے کردار اور کرپشن میں ڈوبا ہوا طبقہ پیدا کردیا ہے۔ جو مغربی قوتوں کے وسیلے مسلط تو مسلمان ممالک پر ہے، لوٹتا مسلمان اقوام کو ہے، لیکن دولت ساری مغربی ممالک میں رکھتا ہے اور عیاشیاں وہیں کرتا ہے۔
یہ وہ طبقہ ہے جو مسلمانوں کے علمی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ اس طبقہ نے مسلمانوں کے لیے صرف مغربی علوم کی کاپی کرنے کا دروازا کھولا ہوا ہے تحقیق کے تمام دروازے بند رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ یونیورسٹیز ہوتی ہی تحقیق کے لیے ہیں لیکن مسلمان ممالک میں یونیورسٹیز تحقیق سے مبرا ہیں۔